سوچ اور سمجھ کا زاویہ درست کریں
تحریر: ثناء اللہ وزیر
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ہر شئ کے اندر مثبت اور منفی پہلو یعنی اچھائی اور برائی دونوں پائی جاتی ہیں ، لیکن بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جس کے مثبت اثرات، منفی اثرات پر غالب آتی ہے ، یا منفی اثرات، مثبت اثرات پر غالب آتی ہے۔
اب ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ اگر ہم کسی جماعت چاہے سیاسی ہو یا غیر سیاسی ہو کے ساتھ وابستگی کا اظہار کرتے ہیں ، تو ہم یک طرفہ بن جاتے ہیں ، یا تو ہم اس کے منفی اثرات اور برائی کو دیکھ کر اس جماعت سے نفرت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور دیگر لوگوں کے سامنے اس جماعت کی صرف برائی کا تذکرہ کرتے ہیں، اور اس کو بطور ہتھیار استعمال کر کے دیگر لوگوں کواس سے متنفر کرنے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں۔
یا تو اس کے مثبت اثرات اور اچھی خوبیوں کو دیکھ کر اس جماعت سے محبت اور اس کے حمایت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور لوگوں کے سامنے صرف اچھائی کا تذکرہ کرتے ہیں ، اور مقصود عوام الناس کے ذہنوں میں اس کا دھاک بٹھانا اور اس کا حامی بنانا ہوتا ہے۔
ظاہر بات ہے اگر کوئی شخص اس دونوں پہلو منفی اور مثبت یعنی اچھائی اور برائی میں سے صرف ایک پہلو کو اختیار کرے، تو وہ شخص یک طرفہ سوچ کے حامل ہوگا، یا تو اس کو صرف اچھائی نظر آئے گی اور اس کی حمایت کرتا رہے گا، یا صرف برائی نظر آئے گی تو اس کی مخالفت کرتا رہے گا ، یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ یک طرفہ ذہنیت سے بندہ تعصب اور حسد کا شکار ہوتا ہے جو انتہائی نقصان دہ ہے۔
الغرض! اگر کوئی بندہ کسی جماعت کی حمایت یا مخالفت کر رہا ہے تو ضروری یہ ہے کہ اس کی مخالفت اور حمایت کرنے میں دونوں خوبیوں اچھائی اور برائی کو مدنظر رکھا کرے ۔
یادرہے کہ اپنی وابستہ جماعت کی برائی بیان کرنے سے جماعت کمزور نہیں ہوتا بلکہ مضبوط ہوتا ہے اس لیے کہ بعد میں جماعت کا اس برائی کی طرف نظر ہوگی اور اس کے خاتمے کی کوشش کرے گی۔
نوٹ: اگر کہیں منفی اثرات ،برے اثرات پر یعنی برائییاں ،اچھائیوں پر اتنی غالب آجائیں کہ اچھائیاں دب جائے ، تو اس صورت میں کھل کر مخالفت کرو لیکن دریں حال دلیل کا سہارا لیا کرو نہ کہ تذلیل اور گالی گلوچ کا ، اسی طرح اگر مثبت اثرات، منفی اثرات پر یعنی اچھائیاں ، برائیوں پر اتنی غالب آجائیں کہ برائیاں دب جائے تو اس صورت کھل کر حمایت کرو اور ساتھ ساتھ منفی اثرات کے خاتمے کی کوشش میں لگے رہو