او ‘غا ‘ دیلے کسہ
تحریر ۔محمد انور شاکر وزیر ۔
اصل بات لکھنے سے پہلے ایک بد بختی کا ذکر مناسب سمجھتا ہوں ،ہوا کچھ یوں کہ سوشل میڈیا کے نیٹ ورکس خاص کر ضیاع ئے وقت و بے ادبی کا ماحول مہیا کرنے والا فس بک نے جہاں اچھے اثرات چھوڑے وہاں سماج پر اپنے بُرے اثرات مرتب کئے۔تن آسان نے کچھ یوں حال کیا کہ اس نیٹ ورک پر آپ کتنا ہی سنجیدہ بات پوسٹ کریں ،مشاہدے کی بات ہے بڑے بڑے تعلیم یافتہ حضرات بھی عبارت کی باریکیوں اور بین سطور سے یا تو واقفیت نہیں رکھتے یا غور سے دیکھنے کی زحمت نہیں فرماتے ۔ سو میرے دوستو اور اُن کےدشمنو ! بندہ سیاہ کار کے اس تحریر کو اگر دیکھنا یا پڑھنا ہو تو از راہ کرم غور سے پڑھئے تاکہ کل کلاں کوئی غلط فہمی جنم نہ پائے۔ غلط فہمی سے مراد یہ ہے کہ کوئی ہمیں مفت کا ناقد تصور نہ کریں بلکہ ہماری نیت اصلاح معاشرہ ہے ۔
اصل بات:۔ وانا سے تعلق رکھنے والے ہمارے چند مخلصین آفیسرز کے ایک فلاحی تنظیم کا ایک ترجمان ہفتہ روزہ پھچلے کئی سالوں سے بڑی کامیابی سے شائع ہوتا رہتا ہے ۔
بخُدا ہمیں خوشی اس بات کی ہے کہ اہلیان وانا کیلئے کوئی انسان فلاحی کام کریں اور پھر کوئی مجلہ یا ہفت روزہ بھی ہو تاکہ عوام میں مثبت کاموں کی شعور جاگ اُٹھے۔ویسے بھی
قبائلی علاقہ جات سے معدودے چند ہفت روزے ں شائع ہوتی ہیں ۔ میرا مطلب ہے یہاں کے عوام و خواص اور پوری سماج کے بہبود کیلئے کام کرنے ،روشنی پھلانے ،خواب غفلت سے خوابیدہ مخلوق کو جگانے بعض بھائیوں نے ٹھان لی ہے۔
بھلا اس پر عتراض تو کجا ،ترش روئی کا ہے کو !!!
لیکن ،سنو ! میرے وزیرستانیوں اور اُن کے ظاہری بہی خواہو!
ان پرچوں کو ،ان اوراق کو جو خاص کر قبائل سے یا قبائل کے نام سے شائع کئے جا رہے ہیں ہم اپنے لئے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو کہ ہم پر فرض بھی اور قرض بھی۔ان رسائل و جرائد میں اکثر کی نہیں تو بعض کے مطالعے کا موقع ملتا ہے لیکن
ہارڈ کاپی چونکہ ملنا ممکن نہیں لہذا ای پیپیر یا انٹر نیٹ کے ذریعے تمام خبریں بمع مبارک ایڈیٹوریل صفحہ یا ادارتی صفحہ گا ہے بگاہے دیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے ۔ ایک معلوم صاحب قلم کسی نامعلوم نام سے اور ایک دو اور بھی زبردست کالم لکھتے ہیں ۔ آپ یقین کیجئے کہ ان کی اُردو دیکھ کر رشک آتا ہے ۔یہ لفظوں کے جادو گر ہیں ۔یہ باریک بین ہیں۔ لفظوں کی بنت کاری عجیب طریقے سے کرتے ہیں ۔ان کی تحریر کو ہم ہر ہفتے 21 توپوں کی سلامی پیش کرتے ہیں ! بھلا کیوں نہیں ؟ وہ جو لفظوں سے کھیلتا ہے وہ جو ابولکلام کی طرح الفاظ ان کیلئے لائن میں کھڑے ہوتے ہیں ! پر ایک بات ہے بتا دوں ؟ ناراضگی تو نہیں ہو گی؟!!
اچھا ،چلو ،بتاریا ہوں!
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سُن لیں !اور ہاں یہ بھی سُن لیں کہ ہمرا نیت میں فتور نہیں ۔صدئے وقت لگار رہاہوں ،ہو سکیں تو اصلاح کیجئے نہ مانیں تو تیرا کام ! ہمرا مطمع نظر اہلیان وانا کی خیر خواہی کیساتھ ساتھ آپ سے بھی ہمدردی کا اظہار کرنا مقصود ہے ۔
آپ فلاحی کام کرتے ہو ! مبارک باد کے مستحق ہو ،اس شک کو ذہن سے آج ہی دور کیجئے کہ ہم اتنے سیاہ بخت بھی نہیں کہ اہلیان وانا کے بھلائی کے کاموں پر ہمارے ”سترگے سرے” ہو نگے ، نکال دو اس سوچ کو دماغ سے نہیں تو ہم اُسی طرح کی صفائی کیلئے بھی تیار ہیں جس طرح آپ مطمئن ہو سکتے ہیں ! بھلا جب قرآن و حدیث ہمیں بھلائی اور انسانیت کے فلاح کا درس دیتی ہے تو ہم کیونکر ”پہ کونج کے مراور کشینی”! یہ ہمارا مذہبی فریضہ ہے ۔لیکن ہمارا اور آپ کے درمیان اختلاف کا نقطہ اغاز پھر کہاں ہے؟ سُنو سُنو ! یہ مخالفت نہیں اختلاف رائے ہے بطور ایک انسان کے یہ میرا بنیادی حق ہے اور آپ کا بھی ۔
لیکن ہم بطور اصلاح اختلاف رائے کا اظہار کئی سالوں بعد کرتے ،اور آپ ۔۔۔۔۔ یاد دلا دوں !!! ہم کہیں گے تو شکایت ہوگی! اور میرے پیارے لگتا ہے آپ کا ہفت روزہ علمائے کرام کے خلاف مورچہ ہے اور کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کا سارا زور آپ کی تمام تر توانیاں اس بات پر خرچ ہوتی ہو کہ علمائے کرام سے عوام کو بدظن یا دور کیا جائے؟ اگر ایسا ہے اور کچھ شواہد بھی ایسے ہیں تو عرض ہے کہ نیت مکہ سریف جانے کی ہے اور جس رستے کا انتخاب کیا تُم نے وہ سیدھا ترکستان ہو کے جاتا ہے!
بنیادی طور پر آپ قبائلی علاقے میں انقلاب برپا کرنا چاہتے ہو مگر ایک بڑی اکثیرت کو آپ نے اپنی مخالفت میں لاکھڑا کیا ہے ۔ ایک طرف آپ کا کام فلاحی ادرے کو لے کر آگے چلنا ہے جبکہ دوسری جانب آپ کے اعمال بذریعہ تقریر و تحریر قابل دست اندازی پولیس جرم نہیں مگر ابلاغ و پیغام کے مسلمہ اصول کے خلاف ہیں ۔ اسی ہفت روزہ میں وہ کونسی ایڈیشن ہوگی جس میں بالواسط یا بلاواسطہ علمائے حق کی کردار کشی بادی نظر میں نہ کی گئ ہو
اور تو اور وہ صاحبان علم جن کی زندگیاں علم کیلئے وقف تھی اُن کے علمی مشن پر اشاروں کنایوں میں تبرا کیا آپ کے قلم کا شیریں مشغلہ نہیں رہا؟
اس بار آپ کے ایک بڑے پروگرام میں علمائے کرام کی عدم شرکت کیا آپ کیلئے نیک شگون ہے؟ میرے محترم ! علماء کا ایک خاص اثر ہے قبائلی عوام کے ذہنوں سے اتنی جلدی وہ بھی فس بک کے 39 لائیکس پر آپ نہیں نکال سکتے بھول ہے آپ کی ٹھوکر کھائی آپ نے ؟ بتاؤ تو سہی کسی فلاحی تنظیم نے اپنے کندھوں پہ ”بیڑائی و انگریزائی ”بندوق رکھی ہو ؟ سیاسیات و عمرانیات کے کن کن اصول کے تحت آپ نفرت کے آگ کو لے کر سماج میں محبت بانٹنے کا ارادہ رکھتے ہو؟ اچھا آپ کے پیغام انقلاب کے جو پیامبر جو سفیر بنے بیٹھے ہیں کبھی ان کی نشست و برخاست والی گفتگو اور ہر چوراہے پر دشنام طرازی کو سُنا ہے ؟ کیا یہ پُر سکون مکالمے کا دور نہیں ؟ کیا ہم سب کو ایک ہو جانے کا دور نہیں ؟ کیا محبت و اخلاص کا وقت نہیں ؟ آپ کے نیک کام اور فلاحی کام سر آنکھوں پر ،اس سے کبھی ہمیں ملال نہیں بلکہ ہم خوش ہیں تھے اور رہیں گے لیکن آپ کے طریقہ انقلاب سے اختلاف ہے مانا کہ آپ کو علماء سے اختلاف ہے کون ہے جو آپ سے اُمید رکھیں کہ آپ اختلاف کو ختم کریں یہ فطری چیزیں ہو تی ہیں ،پر اتنی تسلسل سے آپ اُن ہستیوں پربھی تنقید کے نشتر چلاتے ہو جن کے ساتھ لوگوں کے عقیدت و محبت کے دل دھڑکتے ہیں ! اس سماج کو تقسیم کر کے ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اگر آپ یہ سمجھتے ہو کہ اسی طرح آپ انقلاب لا سکتے ہو تو معذرت کیساتھ بطور ایک مبصر کے بتارہاہوں کہ آپ بہت ہی بڑے بڑے جلسے تو منعقد کرواسکتے ہو ،آپ کو فس بک پر سینکڑوں لائیکس تو مل سکتے ہیں ،لیکن زمینی حقائق اور معروضی حالات کے تقاضے کچھ اور ہیں ،یاد ہے آپ کو قاضی حسین احمد مرحوم کے جلسے ؟!!اس ڈیجیٹل دور میں آپ کا بیانیہ کچھ عجیب سا لگتا ہے ۔علم و تعلیم کے سلسلے میں اعتراض کرتے ہو وہ بھی عجیب لوگوں پر ؟صاف صاف کہہ دو کہ ”پہ رٹ سڑی توب ویر سرہ رٹ یم ”’ کا مسلہ ہے تعلیم کی ڈھال کیوں آگے کرتے ہو؟
لیکن کیا ؟؟؟ جان کی امان پاوں؟ تو عر ض کر سکتا ہوں !!؟
اے میرے سوچ و فکر کے زاویوں کو 180 ڈگر ی سمت مخالف میں لے جانے والو!!
تیرے اس شبانہ روز محنت و لگن کو تین سلام ۔
آپ کے پیغام کو مزید پزیرائی مل سکتی ہے لیکن اس شرط پر کہ آپ اپنے اندر کے منتقم مزاج انسان کو صلح پر آمادہ فرمائیں۔
تیری عقلمندی کو دو بیلچوں پر سلوٹ ، تیری جرءت و بہادری ،لیاقت و قابلیت کو 21 توپوں کی ہر صبح سلامی ،لیکن ۔۔۔۔،
لیکن ،،،، اے ہمارے پیارے کالم نگار جناب ۔۔۔۔۔ ( اس بار نہیں ،پھر ۔۔۔۔۔) صاحب تیری الفاظ سے تو ہماری اُردو گھر کے اندر منہ چھپائے بیٹھی ہے! الفاظ و تراکیب کی بُنت کاری، معانی و مفاہیم میں سادگی ، دلروبائی، لطافت ، ادبی شگوفے، خوب صورت چھٹکلیاں!!
آپ صاحب کے کالم کو پرھے بغیر کل سبع ایام عبث معلوم ہوتی ہے ( ادبی لحاظ سے کہ ہم سیکھتے ہیں )
لیکن کبھی جب حلقہ یاراں سے دور ہو، اکیلے ہو ، سوچا ہے !؟
پورے سماج کو غلیل کی بجائے دلیل سے کیوں نہیں بلاتے !!
غیبت اور تہمت اور بہتان تراشی بذریعہ کالم نگاری بایں جا رسید کہ
؎ خُدا کے بندوں کو پس از مرگ نہ چھوڑا ہم نے
کیا ایسے بظاہر خوشکن لیکن درحقیقت متشددانہ رویوں سے سماج کی دھجیاں نہیں بکھر جاتی؟
اختلاف رائے نہ صرف ٹھیک ہوتی ہے بلکہ ایک فطری امر بھی ہے پر آپ نے تو محاظ کے محاذ کھول دئے ہیں ۔ جیسا کہ عرض کیا کون بد بخت ہوگا جنکو وانا اور اہلیان وانا کی ترقی اچھی نہ لگیں ۔کس نے کہا ہے کہ آپ نے یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھ کر اچھا نہیں ؟!!! بتادو ہمیں وہ ازلی سیاہ بخت جو مخلوق خُدا کے ساتھ ہونے والے بھلائی کے کاموں پر آپ سے ناراض ہو ؟ میرے محترم ایسا نہیں ،کچھ ہم پہ بھی یقین کرونا!! علمائے کرام کچھ بھی ہو یہ آپ کے وزیر ستانی ہی ہیں۔ ! اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرو علمائے کرام کو اپنے ساتھ لے کر چلو ۔ اگر آپ اسی سوچ کیساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہو کہ چھوڑ دو یہ انگریزی دان نہیں ہیں یہ کون ہوتے ہیں ، تو آپ کی مرضی لیکن آپ کا یہ فیصلہ جذباتی تو ہو سکتا ہے عقلم سلیم کے عین مطابق نہیں !
آپ دل ہی دل کہیں گے کہ نہیں ہم نے تو کچھ کہا ہی نہیںتو معاف کیجئے بندہ ایک رپورٹر ہے وہ بھی بہت جونئیر اور دو ٹکے کی رپورٹر ہوں پر آپ کے ہر تحریر کو غور سے پڑھا بھی ہے
بندہ عاجز کے فہم کےمطابق رستہ دکھا دیا ،آئینہ دکھا دیا ، اور ہاں اللہ تعالی گواہ ہے کہ خالص نیک نیتی سے سب کچھ آپ کی خدمت میں عرض کیا۔
باقی رہے نام اللہ کا۔