جنوبی وزیرستان میں فٹ بال کھیلنےوالی بچی کی تصویرلوگوں کی توجہ کا مرکز بنا
فٹ بال کھیلنے والی بچی کی تصویرپرروشن فکر اور مذہبی سوچ رکھنے والوںکی طرف سےمختلف تبصرے جاری ہیں
جنوبی وزیرستان ۔جرگہ نیوز آن لائن۔ایک وہ دور تھا کہ قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کے متعلق اکثر میڈیا پر دہشت گردی اور بدامنی کی خبریں دیکھنے کو ملتے تھے۔ہر وقت وزیرستان سے بم دھماکوں اور آپریشنوں کی خبرے آتے تھے۔لیکن آج کا وزیرستان بدامنی سے امن کی طرف اپنی منزل طے کررہا ہے۔جنوبی وزیرستان تنائی میں واقع القادر پبلک سکول میں فٹ بال کھیلنے والی بچی کی تصویر لوگوں کےتوجہ کا مرکز بنا۔تصویر میں نظر آنے والی بچی فٹ بال کھیلتی ہے۔یہ بچی جنوبی وزیرستان وانا سے چند کلومیٹر پر واقع القادر پبلک سکول میں تعلیم حاصل کررہی ہے۔القادر سکول کے پرنسپل شاہ حسین کے مطابق سکول کا سپورٹس گال جاری ہے۔جس میں نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت مندانہ سرگرمیوں میں بھی بچے اور بچیاں حصہ لے رہے ہیں۔
فٹ بال کھیلنے والی بچی کی تصویر کو لوگ مختلف نظروں سے دیکھتے ہیں۔لوگ تصویر پر مختلف تبصرے بھی کرتے ہیں۔روشن خیال طبقے کا کہنا ہے کہ بچی کی یہ تصویر روایتی سوچ کو شکست دینے اور وزیرستان میں امن لوٹنے کی نوید سناتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے وزیرستان میں قدامت پسند سوچ رکھنے والوں کی وجہ سے خواتین صحت مندانہ سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتی تھی۔ماحول اور قبائلی روایات کی وجہ سے خواتین تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا کررہے تھے۔جس کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں خواتین کی تعلیم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔وزیرستان میں جاری دہشت گردی نے تعلیمی نظام کو پوری طرح مفلوج کیا تھا۔خواتین تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کررہے تھے۔صحت مندانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کا تو فیمل تصور نہیں کرسکتی تھی۔لیکن آج اگر سکول کی بچی صحت مندانہ سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہے۔تو اس سے باقی خواتین کو بھی حوصلہ مل جائےگی۔اب خواتین اپنے حقوق کیلیے آواز اٹھائیں گے۔کیونکہ فاٹا انظمام کے بعد قبائلی اضلاع اب باقاعدہ طور پر یہاں پاکستان کا آئین لاگو کیا گیا ہے۔اب خواتین اپنے حقو ق کیلیے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹا سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر صارفین نے بچی کی تصویر کو حوصلہ افزا عمل قرار دیا ۔ایک قبائلی نوجوان نے تو تصویر کے ساتھ لکھا تھا۔کہ تصویر میں نظر آنے والی بچی فٹ بال کو لات نہیں مار رہی ہے بلکہ بچی قدامت پسندی ،انااور قبائلیوں کے روایتی سوچ کو لات ماررہی ہے۔اور روایتی سوچ کو مسترد کرنے کا پیغام دے رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف بعض مذہبی لوگوں کی طرف سے بچی کے اس عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ان کا کہنا ہے کہ بے شک اسلام خواتین کو صحت مندانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دیتاہے۔تعلیم حاصل کرنے کی اجازت بھی دیتاہے۔لیکن یہ سب کچھ پردے کے اندر ہوناچاہئے۔اسلام عورت کو مردوں کے سامنے کھیلنے کی اجازت نہیں دیتا۔مذہبی طبقے کا کہنا ہے کہ اسی طرح کی سرگرمیوں سے معاشرے میں بے حیائی کو فروغ ملے گی