یوتھ آف وزیرستان کو ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنے کی اجازت نہیں دی گئی
(جرگہ نیوز آن لائن ) شمالی وزیرستان میں جاری بدامنی کے خلاف یوتھ آف وزیرستان کی طرف سے ڈی چوک اسلام اباد میں ہونے والا دھرنا ملتوی ۔یوتھ اف وزیرستان کی طرف سے 14 دسمبر 2020 کو ڈی چوک میں دھرنے کے لئے اسلام اباد کی ضلعی انتظامیہ کو درخواست دی تھی لیکن کرونا اور دفعہ 144 کا بہانہ بناکر ہمیں این او سی دینے سے انکار کردیا گیا اور ہمارا جمہوری حق ہم سے چھین لیا گیا ایک طرف لاہور میں پی ڈی ایم کو ہزاروں لوگوں کو اجازت ملتی ہے جبکہ دوسری طرف شمالی وزیرستان کے لوگوں کواپنی آہ و فریاد کی بھی اجازت نہیں ملتی ۔ان خیالات کا اظہار یوتھ اف وزیرستان کے ذمہ داران نے نیشنل پریس کلب اسلام اباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔
یوتھ آف وزیرستان کے چئیرمین نوراسلام نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بدامنی کے ساتھ ساتھ ہمارے لوٹ مار کا بازار بھی گرم رکھا گیا ہے نوکریوں، سرکاری و غیرسرکاری پراجیکٹس کا خرید وفرخت ، بنوں سے افغان بارڈر تک تمام پولیس چیک پوسٹوں پر بھتہ خوری جاری ہے، اس کی روک تھام کی جائے اور ہم پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ دوران عضب اور ما بعد جس نے وزیرستان میں ڈیوٹی کی ہے چاہے وہ فوجی افسران ہیں یا سول سب کا احتساب کیا جائے۔اس کے علاوہ غلام خان ٹرانزٹ روٹ بھی ہر قسم تجارت کیلئے کھول دی مکمل طور پر کھول دی جائے تاکہ اہلیان علاقہ باروزگار جو دہشتگردی کے خاتمے کیلئے انتہائی ضروری ہے۔
جنرل سیکرٹری وقار احمد نے کہا کہ کہ ضرب عضب کے پانچ سال بعد بھی ہمارے لوگوں کی واپسی ممکن نہیں بنائی جاسکی جو ریاست کی نااہلی اور غیر سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ علاوہ ازیں اس بات میں کسی کو شک نہیں ہوسکتا کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے تعلیم کا ہونا اشد ضروری ہےلیکن بدقسمتی سے وزیرستان میں ابھی تک ایجوکیشن بھی پوری طرح بحال نہیں کیا جاسکا ہے۔ بیشتر سکول یا تو ضرب عضب کے بعد سے مسمار حالت میں پڑے ہیں اور اگر کسی سکول کا بلڈنگ ٹھیک ہے تو اس میں جانوروں کے اسطبل بنادئے گئے ہیں خصوصا دوردراز علاقوں کے سکولوں کا یہ حال ہے۔ اس کے علاوہ وزیرستان میں ضرب عضب سے پہلے تعمیر شدہ تعلیمی اداروں اور متعدد ہلتھ سینٹرز کیلئے سٹاف کی منظوری نہ ہوسکی جو لمحہ فکریہ اور حکومتی نیت کا حقیقی ترجمان ہے۔
سنید احمد داوڑ نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیرستان میں حکومتی عدم سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وزیرستان کی عدالتیں ابھی تک بنوں میں ہیں، جو وزیرستان کے بعض علاقوں سے تقریبا ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، لہذا فوری طور جوڈیشل کمپلیکس کو شمالی وزیرستان منتقل کئے جائیں۔ اس کے علاوہ پاسپورٹ سمیت ہمارے تمام دفاتر کو ایمرجنسی بنیادوں پر وزیرستان منتقل کئے جائیں۔
یوتھ آف وزیرستان کے سنئیر رہنماء مصور داوڑ نے کہا کہ انٹرنیٹ جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے لیکن ہمیں اس ضرورت زندگی سے بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ محروم رکھا جارہا ہے 3G/4G تو دور کی بات ہے، پی ٹی سی ایل کو بھی باوجود مطالبوں اور احتجاجوں کے میرعلی بازار تک محدود رکھا گیا ہے۔ ایک طرف گذشتہ ایک سال سے کرونا کے عذاب کی وجہ سے سکول بند رہتے ہیں اور ملک بھر میں تعلیمی سرگرمیاں انٹرنیٹ پر کی جارہی ہیں تو دوسری طرف ہمیں انٹرنیٹ سے محروم رکھ کر ہمارے بچوں کے مستقبل کو برباد کیا جارہا ہے جو سراسر زیادتی اور امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔یوتھ کے سینئیر رہنماء اور خزانچی وقار داوڑ نے کہا، کہ اگر حکومت واقعی حالات کی بہتری میں شنجیدہ ہے تو وزیرستان میں پیدا ہونے والے معدنیات پر اہلیان علاقہ کو رائلٹی دی جائے۔ہدایت داوڑ کا کہنا تھا کہ جب تک منصفانہ نظام کا نفاذ یقینی نہیں بنایا جاتا حالات کی بہتری کی امید بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔