ملکی سلامتی کو لاحق خطرات ،چند تجاویز
تحریر،محمد انور شاکر وزیر ( دو تین سال پہلے کا لکھا ہوا ایک ٹکڑا
تحریر ،محمد انور شاکر وزیر ۔
صحافیانہ مرچ مصالحہ لگانے کی شوق ہے اور نہ ہی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی تپکی سے جوش میں آیا ہوں ۔ صورت حال مگر کچھ یوں ہے کہ میرا اور آپ کا پیارا پاکستان چاروں اطراف سے نرغے میں ہے ۔ ملکی اندرونی صورت حال خاصی خراب جبکہ بیرونی حالات بھی الرامینگ پوزیشن پر ہیں ۔ پہلے خطرات کا ذکر کرتے ہیں پھر چند تجاویز بھی ارباب اختیار ،رولپنڈی و اسلام آباد کے حضور پیش کریں گے ۔
خطرات ۔ اندورونی و بیرونی :: مغربی سرحد انگلینڈ کے موسم جیسا ہے جس کے بارے میں کوئی پیش گوئی مشکل سے ہوتی ہے ۔ کابل میں عین غین رجیم ( عبد اللہ غنی ) نے اپنا اصلی چہرہ کب کا دکھا دیا ۔ اور مزید انتظار فرمائیں ۔یقینا آپ کو کرزائی تھوڑا بہت پرو پاکستان محسوس ہونے لگے گا ۔یہ ہمارا دعویٰ نہیں بلکہ قوی اندیشہ ہے ۔کچھ مناظر دینا دیکھ چکی ہیں ، کابل شہر میں بانی پاکستان کے پھتلے جلا دئے اور افغان نیشنل آرمی کے اہلکار پاکستان کی سبز ہلالی پرچم کو بوٹوں تلے روندتے ہیں ۔ یہ دن بھی آسمان نے دیکھ لئے کہ کابل میں پاکستان کے خلاف ،الجہاد لجہاد کے نعرے اور فتوؤں کی گونج بین الاقوامی میڈیا کے سرخیوں کی بھی زنیت بنی اور 15 آگست کو لوگ اینڈین جھنڈا اُٹھا کر ہندوستان زندہ باد اور پاکستان مردہ باد (خاکم بدہن) نعرے لگاتے رہیں ،کیا ابھی پالیسی ساز حضرات ‘مصلحت اور کچھ انتظار کرو کی پالیسی ‘کا ہی سہارا لیں گے ،یا پاکستانی مفادات کے تحفظ کے عین مطابق زمینی حقائق اور معروضی حالات کو پیش نظر رکھ کر آگے کی طرف جائیں گے ۔ افغانستان میں ‘را’ اور موساد’ کی پاکستان مخا لف سرگرمیاں کوئی بریکنگ نیوز نہیں ۔ کنڑ سے لے کر قندہار تک ایک درجن سے زائد ہندوستانی قونصلیٹس اب قصہ پارینہ رہا۔ پاکستانی سرحد کے قریبی علاقوں میں ،تعلیمی ،طبی اور فلاحی کاموں میں مصروف ہندوستانی جاسوس کہیں اور نہیں تو شمالی اور جنوبی وزیرستان سے ملحقہ پاک افغان علاقوں کی خبر لینی چاہئے ۔ وہاں پر مسلسل پاکستان مخالف ایک کمپین چل رہی ہے لیکن شائد اُس آگ کی تپش فی الحال محسوس نہیں کی جا رہی ہے ۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے جب جنوبی وزیرستان سے کچھ خاندان بارڈور کے اُس پار گئے تھے تو ان کا استقبال شدید ہوائی فائرئنگ سے کی گئی تھی ، پھر ماہانہ راشن ،نقدی وغیرہ اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے لیکن ہم تاحال شائد خواب خرگوش کےسورہے ہیں ۔
14 آگست 2015 یوم آزادی پاکستان پر کیا صورتحال تھی کابل میں اور پھر 15 آگست کو بھارتی یوم آزادی پھر کیا جشن تھا ! شائد آپ میں سے اکثر نے سوشل میڈیا پر تصاویر دیکھی ہو گی ۔
نمبر ایک : برادر اسلامی ملک ایران : ہندوستان نواز برادر اسلامی ملک ایران کیساتھ سرحدی تناؤ کچھ عرصہ سے ایسا نہ رہا جیسا کہ دو برادر اسلامی ممالک کے مابین ہوا کرتا ہے ۔ اگرچہ پاکستان ایرانی انقلاب کے بعد مسلسل کوشش کرتا رہا ہے کہ ایران کیساتھ تعلقات مثالی رہے لیکن جس نے اس کو گہرائی میں دیکنھی ہو وہ ایرانی سرکاری میڈیا کو واچ کر سکتے ہیں ۔
مشرقی سرحد پر تناؤ نہیں بلکہ جنگ کی سی کیفیت ہے روز بھارتی فورسز کی جانب سے ورکنگ بونڈری اور ایل او سی کی خلاف ورزیاں کی جاتی رہی ہیں ۔ مودی سرکار نے گویا جنگ کی ٹھان لی ہے ۔ اُبامہ کا بھارتی یوم جمہوریہ پر انڈیا کا دورہ اور حال ہی میں مودی کا متحدہ عرب امارات میں سر گرمیوں پر غور کیا جائے تو یہ پاکستان کیلئے ایک شدید سفارتی و اخلاقی دھچکا ہے ۔
اندرونی خطرات میں بد آمنی ،جس میں ٹارگٹ کیلنگ ،بم دھماکے ،اغوا ء برائے تاوان وغیرہ شامل ہیں ۔ جنوبی وزیرستان آپ کا مکمل کلئیر نہیں ، شمالی وزیرستان بھی کلئیر نہیں ، خیبر ایجنسی میں بھی اپریشن جاری ہے ۔ کراچی میں اگرچہ صورتحال قابو میں آچکی ہے لیکن بد آمنی پھر بھی ہے ۔ بلوچستان سے توا بنا ہوا ہے اگر چہ وہاں پر اب حالات قدرے بہتری کی جانب گامزن ہیں لیکن باہر کی ایجنسیوں کی طفیل اور انڈیا کی برکت سے تاحال مگر وہاں کی تندورخاصی گرم ہے ۔
یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی جوہری صلاحیت امریکہ سمیت کئی مغربی و یورپی ممالک کے انکھوں میں چھبا ہوا کانٹا ہے ۔ اسی کانٹے کو بہر نکال پھنکنے کیلئے سینکڑوں آزمودہ کار جراح مصروف کار ہیں ۔ اللہ تعالی ہمارے اس قوت کی حفاظت فرمائیں ،اگر یہ قوت یعنی ایٹم بم نہ ہوتا تو انڈیا اب تک کئی بار ہم پر بڑی طاقتوں کی آشیر باد سے حملے کر چکے ہو تے لیکن اللہ کا شکرہے ،بات مگر کچھ یوں ہے کہ اس شکر کے بھی کچھ تقاضے ہوا کرتے ہیں ،اتحاد،اخوت،حب الوطنی وغیرہم ، کیا یہ اوصاف بدرجہ اتم ہم میں موجود ہیں اگر نہیں تو فکر مندی کا مقام ہے ،دشمن کن سازشوں میں لگا ہے اور ہم کن کاموں میں مصروف ہیں اس کا تجزیہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور کرنا چاہئے۔
حال ہی میں پاک چین اقتصادی رہداری کیلئے کبھی مخالفین کی مثلث بن جاتی ہے تو کبھی شش جہتی سازشیں شروع ہو جاتی ہیں ۔ اب ان مسائل کے ہوتے ہوئے ہم نے ملک کے اندر اپریشن راہ نجات اور ضرب عضب جیسے فیصلہ کن فوجی اپریشن شروع کئے۔ دریں اثنا ء پاکستان کے معاشی شہ رگ کراچی کے امن و امان کو بحال کرنے کیلئے وہاں رینجرز کی کاروائیاں شروع ہوئی ۔شکر ہے جرائم میں نائن زیرو فیصد کمی آئی جس میں نائن زیرو کا بھی خاصہ رول تھا ۔ بوری بند لاشیں ،سر کٹی لاشیں، بھتہ خوری میں خاطر خواہ کمی آئی ہے لیکن وہاں کافی کام ابھی باقی ہے ۔کراچی اپریشن سے ایک لفظ کو منہا کیا جائے ‘سیاسی مصلحت’ تو ان شاء اللہ بہترین نتائج جلد ہی آنا شروع ہو جائینگی۔
نمبر ایک :تجاویز
صحافیانہ اندازہ یہ ہے کہ ہم نے خود کو اور اسٹیمٹ کیا ہے ہمارے وسائل قدرے کم ہیں جبکہ مسائل زیادہ ہیں ہمارے ریاست کے تجزیاتی وینگ کے ذمہ داران کو شائد ہم سے بہتر اندازہ ہو کہ ہر کاروائی کے رد عمل کا اندازہ بھی پہلے سے ہی لگایا جاتا ہے ۔لیکن نہ معلوم کہ ہماری ترجیحات ہیں کیا ؟ اپریشن راہ نجات بارے تاحال یہ اعلان نہ ہوسکا کہ یہ ختم ہوا اور متاثرین اپریشن کو واپس بھیجا گیا یا نہیں ؟ حالانکہ یہ اپریشن 2009 میں شروع ہوا تھا۔ ہمارے خیال میں سب سے پہلے ترجیحی بنیادوں پر راہ نجات کو مکمل کر کے وہاں کے بے گھر محسو دقبائل کے افراد کو جو ٹانک اور ڈی آئی خان وغیرہ میں پڑے ہیں کو واپس اپنے علاقوں میں بھیج دیا جائے (جیسا کہ بعض کو بھیجا بھی ہے )
دوئم)ان محسود قبائل کو ریاستی اور حکومتی سطح پر اپنائیت کا احساس دلایا جائے ۔ ان کو وفادار اور پُرامن شہری جیسا سینے سے لگا کر ان کے علاقوں میں تعلیم ،صحت اور روزگار کے مواقع کا بندوبست ترجیحی بنیادو پر کرنا چاہئے۔
سوم ؛ان علاقوں کے طلباء کیلئے تعلیمی اداروں میں پہلے سے مخصوص کوٹہ کو بڑھا دیا جائے۔
چہارم:کراچی اپریشن کو مزید تیزکیا جائے وہاں ملزمان کی عدالتوں میں پیشی کو جلد ہی یقینی بنایا جائے تاکہ کسی کو اس اپریشن اُنگلی اُٹھانے کا موقع نہ مل سکیں۔
نمبر پانچ:افغان طالبان ( ملاعمر مرحوم والے) کے ساتھ خوامخواہ مفت میں تعلقات خراب نہ کی جائے ۔ ہمارے بعض دیسی لبرل بھائی سمجتے ہیں کہ ہر وقت جنگ و جدل ، توپ و تفنگ اور بم و بارود کی بو ہوتی ،ایسا ہر گز پاکستانی ریاست کے مفاد میں نہیں مستقبل قریب میں کابل کے عین غین رجیم ( اشرف غنی اور عبداللہ عبد اللہ ) کرزائی سے بڑھ کر پرو انڈیا ثابت ہونگے بلکہ سرحد پر ناخوشگوار واقعات میں بھی اضافہ ہو گا جس کے پیچھے مودی سرکار کی تپکی کا اثر زیادہ اور اپنا مفاد کم ہوگا ۔ اٖفغان طالبان سے لاکھ نظریاتی اختلاف سہی لیکن ایک پٹاخہ انہوں پاکستان میں نہیں چلایا اب تک حالانکہ ہم نے بطور ریاست کچھ اچھا نہیں کیا ان سے ۔ افغان طالبان وہاں کی ایک حقیقت ہے اور رہے گی لہذا پاکستانی ریاست کی مفاد اس میں ہے کہ ان سے خوامخواہ کی دشمنی نہ مول لیں ۔نہ تو پاکستان ان سے تعاون وغیرہ کریں اور نابے جا دشمنی ۔
نمبر چھ: بلوچستان میں جاری حالیہ شورش پر قابو پانے کیلئے طویل المدتی منصوبوں پر کام کرنا ہوگا ۔ ہمارے خیال میں وزیر اعظم کو اپنے شیڈول میں قبائیلی علاقاجات اور بلوجستان کو خصوصی اہمیت دے کر وہاں کے دورے بڑھائیں ، تاکہ عوام کو احساس ہو کہ ہمارا کوئی پوچھنے والاہے ۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہم نے تو سب کچھ اللہ ،آرمی اور امریکہ پر چھوڑ دیا ہے جو ہمارا قومی مزاج بنتا جا رہا ہے ! اگر وہاں جا کر وزیر اعظم وہاں کے عوام کے مسائل سے خود کو آگاہ کریں اور ان سے پوچھیں کہ آپ کے مسائل کیا ہیں ؟ خصوصی پیکجز کا اعلان کریں اور پھر ان کی نگرانی کا بھی خود اعلان کریں یقین کیجئے اس کے زبردست دورس نتائج ہوتے! لیکن کاش کہ میاں صاحب وقت کی اس ضرورت اور آواز کو سُن لیتے !!!!
نمبر سات :جنوبی پنجاب اور دینی مدارس کا آج کل شد و مد سے ذکر ہو رہا ہے ۔ ہمارے خیال میں حکومت نے جس بھی مسلک یا فرقے کے خلاف کاروائی یا نصاب /رجسٹریشن بارے کوئی لاحہ عمل تیار کرنا ہو تو چاروں وفاقوں کے سربراہوں جید علمائے کرام ، مذہبی سیاسی رہنماؤں کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھیں ۔ یہاں بندہ نے جو لفظ لکھا ‘اعتماد ‘ یہ بظاہر بہت ہی چھوٹا لفظ ہے لیکن جب یہ نہ ہو تو کبھی کھبار غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں جس کا پیارا ملک متحمل نہیں ہو سکتا ۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کے ریاست کے پاس طاقت نہیں بلکہ ہر وقت طاقت مسلے کا حال نہیں ہو تا وگرنا افغانستان 4 درجن کے قریب ممالک اور طالبان کی بے سرو سامانی ! نتائیج ہمارے سامنے ہیں ۔
نمبر اٹھ :بس بات اتنی سی ہے کہ ارباب اختیار و قتدار سے گزارش ہے کہ اتنے محاذ کھول دیں جتنے کہ ہمارے وسائل ہیں ۔ ترجیحات کی بنیاد پر نمبر 1 اور 2 بھی کر سکتے ہو لیکن بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنا شائد عقل سلیم کے فیصلے نہیں بلکہ جذبات اور مخصوص مقاصد کے تحت فیصلے ہوا کرتے ہیں ۔
کون ظالم ہو گا جو اس ملک کو ایک پر امن ،ترقی یافتہ اور دنیا کے ممالک میں سر اُٹھا کر جینے والا ملک نہیں دیکھ سکتا لیکن بات اس شعر پر ختم کرتا ہوں
؎؎ تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنان شہر!
اتنے نہ در بناؤ کہ د یوار گیر پڑے